مالی شمولیت   

طلب کے اعدادوشمار
اے 2 ایف ایس 2008ء اے 2 ایف ایس 2015ء
بالغ آبادی کا تناسب
11% 16%
الف۔ بینک سے وابستہ
1% 7%
ب۔ دیگر رسمی
12% 23%
رسمی سہولت یافتہ
(الف + ب)
32% 24%
ج۔ غیر رسمی سہولت یافتہ
44% 47%
مالی خدمت یافتہ
(الف + ب + ج)
56% 53%
مالی شعبے سے باہر
ماخذ: مالیات تک رسائی سروے، 2015ء

رسد کے شماریات
54
بینکوں اور ڈی ایف آئیز کی تعداد
13,134
برانچوں کی تعداد
12,000
اے ٹی ایم
44,000
پی او ایس
310,000
بی بی ایجنٹس
43,000,000
کھاتوں کی کل تعداد
7,000,000
قرض گیروں کی کل تعداد
ماخذ: بینک دولت پاکستان

مالی شمولیت کے بارے میں  

مالی شمولیت کیا ہے؟
مالی شمولیت سے مراد رسمی مالی خدمات تک افراد اور اداروں کی رسائی ہے جس کی مدد سے وہ معیاری ادائیگیوں، بچتوں، قرض اور بیمے جیسی مختلف معیاری خدمات حاصل کر سکیں اور ان کی ضروریات باعزت اور احسن طریقے سے پوری کی جا سکیں۔

(مزید تفصیلات کے لیے پڑھیں) 


مالی خواندگی اور استعداد بڑھانا  

پاکستان 180 ملین سے زائد آبادی پر مشتمل ہے تاہم مالیات میں اس وسیع آبادی کی شمولیت انتہائی کم ہے، محض 2.4 فیصد آبادی ہی رسمی مالی ذرائع سے قرض تک رسائی رکھتی ہے۔ پاکستان کی مجموعی بالغ آبادی کا تقریباً 53 فیصد مالی نظام سے باہر ہے۔ آبادی کے اتنے بڑے حصے کے بینک سے الگ (unbanked) ہونے کی ایک اہم وجہ مالی مصنوعات اور استعمال سے آگاہی میں کمی ہے۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ روپے اور مالی انتظام کی بنیادی مہارت سے بھی محروم ہے۔ بجٹ بنانا، اپنی بچت کی سرمایہ کاری کرنا، وغیرہ کے تصورات ان کے نزدیک انوکھے ہیں۔

(مزید تفصیلات کے لیے پڑھیں) 


شراکت داریاں اور معاہدات  

ملک میں مالی شمولیت میں اضافے کے لیے اسٹیٹ بینک نے نہ صرف ملک میں دور رس شراکت داریوں کا آغاز کیا ہے بلکہ اس نے مارکیٹ کی بہتری اور اختراعات میں اضافے کے لیے فنڈنگ کی اعانت کے علاوہ علم میں اضافے، تیکنکی مہارتیں سیکھنے، اور انضباطی اور اطلاقی صلاحیتیں اپنانے کے لیے بین الاقوامی مالی اداروں اور ترقیاتی اداروں کے ساتھ بھی اشتراک کیا ہے۔

(مزید تفصیلات کے لیے پڑھیں) 


جائزہ / تحقیق  

اسٹیٹ بینک مالی شمولیت کی صور ت حال ، اپنے اقدامات، اختراعات، صنعت کے رجحانات کی کارکردگی ناپنے اور طلب / رسد کے ارتقا و رجحانات طے کرنے کے لیے باقاعدگی سے جائزہ اور تحقیق کرتا ہے۔ ان جائزوں اور تحقیق کے نتائج نہ صرف قومی مالی شمولیت کی حکمت عملیوں کی تیاری میں بنیادی اعدادو شمار فراہم کرتی ہیں بلکہ پالیسی بنانے میں بھی مددگار ہوتی ہیں۔

(مزید تفصیلات کے لیے پڑھیں)