اسٹیٹ بینک کے بارے میں 

قانونی ڈھانچہ  


اسٹیٹ بینک کے بنیادی وظائف درج ذیل سے متعین ہوتے ہیں:
1. ایس بی پی ایکٹ، 1956ء ( 19 نومبر 2015ء تک ہونے والی ترامیم کے ساتھ)
2. بینکنگ کمپنیر آرڈیننس ، 1962ء
3. زرمبادلہ کے ضوابط کا ایکٹ، 1947ء
4. نظام ادائیگی و رقوم کے الیکٹرانک تبادلے کا ایکٹ، 2007ء

بینک دولت پاکستان آرڈر 1948ء کے تحت بینک کو یہ فرائض سونپے گئے کہ وہ " بینک نوٹ کے اجرا کو منضبط کرے اور پاکستان میں زری استحکام کے حصول کے لیے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو محفوظ رکھے، نیز   عمومی طور پر ملک کے مفاد میں اس کی کرنسی اور قرضوں کا نظام   چلائے "۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ، 1956ء میں بینک کی سرگرمیوں کا دائرہ خاصا بڑھ گیا، جس کے مطابق اب بینک کا کام "پاکستان کے زری اور قرضے کا نظام منضبط کرنا اور بہترین ملکی مفاد میں اس کی نمو کو تقویت بہم پہنچانا نیز زری استحکام کے حصول اور ملک کے پیداواری وسائل کے پوری طرح استعمال کو پیشِ نظر رکھنا " تھا۔ 

مالی شعبے کی اصلاحات کے تحت بینک دولت پاکستان کو  فروری 1994ء میں خودمختاری دے دی گئی۔ اس خودمختاری کو مزید تقویت دینے کے لیے 21 جنوری 1997 ء کو  تین ترمیمی آرڈیننس جاری ہوئے (جو مئی 1997 ء میں پارلیمنٹ سے منظور ہوئے) جن کے نام اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ، 1956ء ، بینکنگ کمپنیز آرڈیننس ، 1962ء ، اوربینکس نیشنلائزیشن ایکٹ، 1974ء تھے۔

اسٹیٹ بینک ایکٹ میں تبدیلیوں  سے اسٹیٹ بینک کو بینکاری شعبہ  منضبط کرنے، خودمختار زری پالیسی کا انتظام کرنے، اور اسٹیٹ بینک سے حکومتی قرضوں پر حد مقرر کرنے کے مکمل اور خصوصی اختیارات  مل گئے۔ بینکس نیشنلائزیشن ایکٹ میں ترامیم سے پاکستان بینکنگ کونسل (یہ ادارہ قومیائے گئے  کمرشل بینکوں (NCBs)  کے معاملات کی دیکھ بھال کے لیے بنایا گیا تھا) کو ختم کردیا گیا اور  قومیائے گئے  کمرشل بینکوں اور ترقیاتی مالی اداروں (DFIs) کے  چیف ایگزیکٹوز اور بورڈز کے تقرر کا طریقہ ادارہ جاتی بنایا گیا  جس کے تحت ان کے تقرر اور برخاستگی میں اسٹیٹ بینک کو بھی ایک کردار دیا گیا۔ ان ترامیم سے بینکوں اور ترقیاتی مالی اداروں کے چیف ایگزیکٹوز  اور بورڈز آف ڈائریکٹرز کی خودمختاری اور جواب دہی میں بھی اضافہ ہوا۔