Placeholder image
اکاؤنٹ کھولنے کے لیے کلک کیجیے   

 

    عمومی سوالات
    روشن ڈجیٹل اکاؤنٹس کے ذریعے لاکھوں غیر مقیم پاکستانیوں (این آر پیز) کو بینکوں کی جانب سے ڈجیٹل بینکاری کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ اِن تارکینِ وطن میں پاکستان اوریجن کارڈ (پی او سی) کے حامل افراد بھی شامل ہیں۔ اب جو پاکستانی تارکینِ وطن پاکستان میں بینکاری، ادائیگی اور سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں وہ پاکستان جائے بغیر، یعنی بینکوں کی برانچوں کا دورہ کیے بغیر ڈجیٹل ذرائع سے انجام دے سکتے ہیں۔ کوئی بھی بیرون ملک پاکستانی (این آر پی) اب پاکستانی بینک میں ڈجیٹل طریقے سے اکاؤنٹ بآسانی کھول سکتا ہے جس کی شرائط بہت آسان ہیں۔ بینک یہ خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ روشن ڈجیٹل اکاؤنٹ ایک روایتی بینک اکاؤنٹ ہے، جسے دوردراز مقام سے انٹرنیٹ کے ذریعے کھولا اور آپریٹ کیا جا سکتا ہے۔
    اس وقت یہ بینک بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ڈجیٹل اکاؤنٹ کھولنے کی خدمات فراہم کر رہے ہیں جو درج ذیل ہیں :

    • الائیڈ بینک
    • بینک الفلاح
    • بینک الحبیب
    • بینک آف پنجاب
    • دبئی اسلامی بینک
    • فیصل بینک
    • حبیب بینک
    • جے ایس بینک
    • حبیب میٹرو بینک
    • ایم سی بی بینک
    • میزان بینک
    • سامبا بینک
    • اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک
    • یونائیٹڈ بینک
    روشن ڈجیٹل اکاؤنٹس کے تحت اکاؤنٹس کی دو اقسام ہیں، جو یہ ہیں :
    1. فارن کرنسی ویلیو اکاؤنٹ (ایف سی وی اے)
    2. این آر پی روپی ویلیو اکاؤنٹ (این آر وی اے)
    درج ذیل افرادفارن کرنسی ویلیو اکاؤنٹ (ایف سی وی اے) کھولنے کے اہل ہیں :
    1. ایک غیر مقیم پاکستانی۔
    2. ایک غیر مقیم پی او سی کارڈ ہولڈر۔
    3. ایک مقیم پاکستانی جس نے بیرون ملک اپنے اثاثے فیڈرل بورڈ آف ریونیوکے پاس جمع شدہ تازہ ترین ٹیکس گوشوارے میں اعلان کردہ ویلتھ اسٹیٹ منٹ کے مطابق باقاعدہ ظاہر کر رکھے ہوں ۔ فی الوقت اِن افراد کو اپنا اکاؤنٹ کھولنے کے لیے بینک برانچ جانا پڑے گا کیونکہ مقیم پاکستانیوں کے لیے ڈجیٹل آن بورڈنگ کی سہولت ابھی دستیاب نہیں۔
    4. ٹیکس سال کے دوران وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بیرون ملک تعینات ملازمین یا اہلکار۔
    درج ذیل افراد این آر پی روپی ویلیو اکاؤنٹ کھولنے کے اہل ہیں :
    1. ایک غیر مقیم پاکستانی فرد۔
    2. ایک غیر مقیم پی او سی ہولڈر۔
    3. ٹیکس سال کے دوران وفاقی یا صوبائی حکومتوں کے بیرون ملک تعینات ملازمین یا اہلکار۔
    غیر مقیم (non-resident) شخص کی تعریف کو انکم ٹیکس آرڈیننس (باب5، ڈویژنII، سیکشن82) سے اخذ کیا گیا ہے، جو درج ذیل ہے :

    کسی ٹیکس والے سال کسی فرد کو اُس وقت غیر مقیم سمجھا جائے گا جب وہ فرد ملک میں مقیم نہ رہا ہو۔ کسی ٹیکس والے سال کے لیے اُس فرد کو مقیم سمجھا جائے گا جو :

    الف۔ ٹیکس والے سال (جولائی تا جون) کے دوران ایک ہی مدت میں یا مختلف میعادوں میں مجموعی طور پر 183دن یا اس سے زائد پاکستان میں رہا ہو،

    ب۔ ٹیکس والے سال ایک ہی مدت میں یا مختلف میعادوں میں مجموعی طور پر120 یا اس سے زائد دن تک پاکستان میں رہا ہو،اور ٹیکس والے سال سے پہلے کے چار برس پاکستان میں رہا ہو۔
    اکاؤنٹ کھولنے کے لیے آپ کو درج ذیل دستاویزات کی اسکین شدہ نقل اپ لوڈ کرنا ہوگی۔ درج ذیل فہرست معیاری ہے جو روشن ڈجیٹل اکاؤنٹ میں شریک تمام بینکوں پر لاگو ہوتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ کسی صارف کے خاکۂ خطر (risk profile) کے پیشِ نظر کوئی بینک اپنی ضروری مستعدی کو پورا کرنے کے لیے اُس سے کچھ اضافی دستاویز طلب کر لے۔ اگر آپ محسوس کریں کہ بینک بہت زیادہ معلومات طلب کر رہا ہے تو براہِ کرم صارف اور متعلقہ بینک کے نام سے اسٹیٹ بینک کو [email protected] پر مطلع کریں۔

    1. الف) کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کار ڈ/ نیکوپ/ پاکستان اوریجن کارڈ
    2. ب) پاسپورٹ (پاکستانی اور/ یا غیر ملکی)
    3. ج) غیر مقیم حیثیت کا ثبوت
    4. ج) غیر مقیم حیثیت کا ثبوت
    5. د) آئی آر ایس ایف اے ٹی سی اے (IRS FATCA) فارم (صرف امریکہ میں مقیم صارفین کے لیے)
    6. ہ) پیشے اور ذریعہ آمدنی / رقوم کا ثبوت۔ مثال کے طور پر درج ذیل میں سے کوئی بھی دستاویز:

    7. تنخواہ دار افراد درج ذیل میں سے کوئی بھی دستاویز دیں:

    8. تقرر نامہ، تنخواہ کی سلپ یا بینک اکاؤنٹ اسٹیٹمنٹ

    9. کاروباری افراد درج ذیل میں سے کوئی بھی دستاویز دیں:

    10. بزنس رجسٹریشن کی دستاویز، بزنس لیٹرہیڈ یا بینک اکاؤنٹ اسٹیٹمنٹ


    جب آن لائن فارم پُر کر لیا جائے اور دستاویزات درست طریقے سے اپ لوڈ کر دی جائیں تو 48 گھنٹے (دو ایامِ کار ) میں اکاؤنٹ کھل جائے گا۔ اگر بینک کو کوئی مزید بات پوچھنے کی ضرورت ہوئی تو اس کا نمائندہ صارف سے رابطہ کرے گا۔
    جی ہاں، روایتی بینکنگ اکاؤنٹ کے علاوہ اسلامی بینکنگ اکاؤنٹ کا آپشن بھی صارفین کو فراہم کیا جائے گا۔

    کوئی غیر مقیم پاکستانی/ پی او سی ہولڈر متعلقہ قوانین / بینکاری کے طریقوں کے مطابق دوسرے مقیم / غیر مقیم پاکستانیوں کے ساتھ مشترکہ ایف سی وی اے / این آر وی اے کھول سکتا ہے۔ اس اکاؤنٹ کو غیر مقیم اکاؤنٹ تصور کیا جائے گا۔ تاہم وہ مقیم پاکستانی جس کے بیرونِ ملک اثاثے ہوں اور اس نے ایف بی آر پر ظاہر کر دیے ہوں کسی مقیم پاکستانی ہی کے ساتھ مشترکہ ایف سی وی اے کھول سکتا ہے۔
    نہیں۔ جن صارفین کا پاکستانی بینک میں پہلے ہی اکاؤنٹ ہے انہیں ایک نیا آر ڈی اے اکاؤنٹ اُن بینکوں میں سے کسی ایک کے ساتھ کھولنا پڑے گا جن کی اسٹیٹ بینک نے اجازت دی ہے۔
    جی ہاں، کوئی بچہ قانونی ضابطوں کی تکمیل اور منتخب کردہ بینک کے پالیسی ضابطوں کے مطابق اپنے والدین / سرپرست کے ساتھ مشترکہ آر ڈی اے کھول سکتا ہے۔
    ایف سی وی اے تمام اہم کرنسیوں میں کھولا جا سکتا ہے جن میں امریکی ڈالر (یو ایس ڈی)، پونڈ اسٹرلنگ (جی بی پی)، یورو (ای یو آر)، جاپانی ین (جے پی وائی)، کینیڈین ڈالر (سی اے ڈی)، یو اے ای درہم (اے ای ڈی)، سعودی ریال (ایس اے آر)، چینی یوآن (سی این وائی)، سوئس فرانک (سی ایچ ایف) اور ترکش لیرا (ٹی آر وائی) شامل ہیں۔ تاہم اگر صارف چاہتا ہے کہ حکومت پاکستان کی فارن کرنسی والی اسپیشل سیکورٹی (یو ایس ڈی/ جی بی پی/ ای یو آر والا ’نیا پاکستان سرٹیفکیٹ‘) میں سرمایہ کاری کرے تو سرمایہ کاری کی مطلوبہ مالیت کو موجودہ شرح پر یو ایس ڈی/ جی بی پی/ ای یو آر میں ، جو بھی صورت ہو،تبدیل کرانا ہوگا۔
    ان اکاؤنٹس میں بینکنگ ذرائع سے بیرونِ ملک سے آنے والی ترسیلات (ریمی ٹینس) جمع ہو سکتی ہیں۔ اگر صارف کا اپنا فارن کرنسی ویلیو اکاوٓنٹ (ایف سی وی اے) ہے یا اُسی بینک میں دوسرا این آر وی اے ہے تو اُس سے کسی این آر وی اے میں رقم منتقل کی جا سکتی ہے۔ مزید برآں، اِن اکاؤنٹس سے کی جانے والی سرمایہ کاری پر منافع اور اخراجِ سرمایہ (ڈس انویسٹمنٹ) کی رقم بھی اِن اکاؤنٹس میں جمع کرائی جا سکتی ہے۔
    جی نہیں ، مقامی ذرائع سے حاصل رقوم اِن اکاؤنٹس میں جمع نہیں کرائی جاسکتیں، ما سوائے اِن اکاؤنٹس سے کی جانے والی مجاز سرمایہ کاری پر حاصل شدہ نفع / منافع کے، اور اِن اکاؤنٹس سے کی جانے والی سرمایہ کاری کے اخراج/ عرصیت کی تکمیل کی رقوم کے ۔
    جی ہاں ، ان اکاؤنٹس میں موجود رقوم کو کسی بھی قانونی ادائیگی یا پاکستان میں کسی دوسرے مقامی اکاؤنٹس میں منتقل کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اے ٹی ایم یا چیک کے ذریعے پاکستان میں نقد رقوم بھی نکالی جاسکتی ہیں۔
: الف۔ این آر پی روپی ویلیو اکاؤنٹ (این آر وی اے) سے سرمایہ کاری کے مواقع

    1. حکومت پاکستان کی پاکستانی روپے میں تمسکات ( بشمول پاکستانی روپے میں ’نیا پاکستان سرٹیفکیٹ ‘ روایتی اور شریعت سے ہم آہنگ دونوں، ٹی بلز، پی آئی بیز ، صکوک رجسٹرڈ سی ڈی این ایس سیکورٹیز، ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹ/ اسپیشل سیونگ سرٹیفکیٹ/پریمیم پرائز بانڈ، اور حکومت کی جانب سے وقتاً فوقتاً مشتہر کردہ کوئی بھی تمسکات)
    2. پاکستان میں اسٹاک ایکسچینج میں بولی کردہ(quoted) حصص/ یونٹ
    3. میوچل فنڈز کے یونٹ (غیر مسدود اسکیم)
    4. رہائشی اور کمرشل ریئل اسٹیٹ
    5. اکاؤنٹ رکھنے والے بینک کی پاکستانی روپے میں ڈپازٹ پراڈکٹس
:ب۔ فارن کرنسی ویلیو اکاؤنٹ (ایف سی وی اے) سے سرمایہ کاری کے مواقع

    1. حکومت پاکستان کی قرضہ تمسکات غیر ملکی کرنسی میں ، بشمول یو ایس ڈی/ جی بی پی/ ای یو آر میں ’نیا پاکستان سرٹیفکیٹ‘ روایتی اور شریعت سے ہم آہنگ دونوں
    2. اکاؤنٹ رکھنے والے بینک کی غیر ملکی کرنسی میں ڈپازٹ پراڈکٹس
    کسی بھی طرح کی رہائشی اور کمرشل املاک کی خریداری کے لیے ، خواہ یکمشت ادائیگی یا بالاقساط دونوں صورتوں میں سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔ اس میں نئی ہاؤسنگ اسکیمیں ، موجودہ اسکیمیں ، زمین کی خریداری ، اور پہلے سے تعمیر شدہ جائیداد کی خریداری شامل ہے۔
    این آر وی اے سے رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری یا تو اکاؤنٹ ہولڈر کے نام سے کی جاسکتی ہے یا اس کے خاندان کے کسی رکن (ارکان) جن میں والدین ، بھائی ، بہن ، بیوی ، بچے اور خاندانی بزرگ اور خاندانی اولاد شامل ہیں ، کے ساتھ مشترکہ طور پر کی جاسکتی ہے۔
    جی ہاں ، بینکوں کو ان اکاؤنٹس کے لیے اے ٹی ایم / ڈیبٹ کارڈ جاری کرنے کی اجازت ہے اور ان کا استعمال پاکستان میں اور بیرون ملک ادائیگیوں / رقوم کی وصولی کے لیے کیا جاسکتا ہے۔ مزید یہ کہ ، اکاؤنٹ ہولڈر کے تقاضا کرنے پر ، بینک ان اکاؤنٹس کے لیے چیک بک بھی جاری کر سکتے ہیں۔ ڈجیٹل اکاؤنٹس آئندہ دنوں میں پاکستان میں یا بیرون ملک خریداری کے لیے ورچوئل ڈیبٹ کارڈ کی سہولت بھی فراہم کریں گے۔
    پاکستان میں ، رقوم کی وصولی پاکستانی روپے میں ہوگی۔ تاہم ، اگر کسی بینک میں اے ٹی ایم کے ذریعے غیر ملکی کرنسی کی فراہمی کا انتظام ہے تو ، ایف سی وی اے سے رقوم کی وصولی کی صورت میں غیر ملکی کرنسی میں بھی رقم فراہم کی جاسکتی ہے۔

    پاکستان سے باہر رقم کی وصولی کی صورت میں ، یا تو رہائشی ملک کی کرنسی یا متعلقہ ملک میں وصولی کے لیے پیش کی جانے والی کوئی کرنسی فراہم کی جائے گی، تاہماس میں اسکیم، مثلاً ویزا / ماسٹر، کی شرائط و ضوابط لاگو ہوں گی ۔ واضح رہے کہ مبادلے کی قابل اطلاق شرح ہر کرنسی میں مختلف ہوسکتی ہے۔
    اکاؤنٹ کھلنے کے بعد کھاتہ دار (اکاؤنٹ ہولڈر) بینک کی تمام قسم کی ڈجیٹل خدمات بشمول انٹرنیٹ بینکاری، ورچوئل ڈیبٹ کارڈ وغیرہ ، استعمال کر سکے گا۔ تاہم اگر صارف چاہے تو اسے اے ٹی ایم / ڈیبٹ کارڈاور /یا چیک بُک بیرون ملک یا پاکستان میں اس کے رجسٹرڈ پتے پر بذریعہ ڈاک ارسال کی جاسکتی ہے، یا صارف بذات خود بینک برانچ سے انہیں وصول کرسکتا ہے۔ بینک اے ٹی ایم /ڈیبٹ کارڈ اور / یا چیک بک پہنچانے کا خرچ کھاتہ دار سے وصول کرے گا، اور بیرون ملک یا پاکستان میں رجسٹرڈ پتے پر انہیں ارسال کرنے سے قبل کھاتہ دار کی واضح طور پر رضامندی حاصل کرے گا۔
    جی ہاں، اے ٹی ایم /ڈیبٹ کارڈ کے بیرونِ ملک استعمال پر متعلقہ بینک کے مقررہ چارجز لاگو ہوں گے۔
    ان اکاؤنٹس میں دستیاب رقوم متعلقہ بینک یا اسٹیٹ بینک کی پیشگی اجازت کے بغیر کسی بھی وقت پاکستان سے واپس لائی جاسکتی ہیں۔ تاہم اگر یہ رقم زمین و جائیداد میں سرمایہ کاری کی ہے اور اس سرمایہ کاری کو تین سال مکمل نہیں ہوئے ہیں تو سرمایہ کاری کی اصل رقم تو کسی بھی وقت واپس لی جاسکتی ہے تاہم اس کا نفع (کیپٹل گین)،اگر ہوتو، سرمایہ کاری کی تاریخ سے تین سال مکمل ہونے کے بعد واپس لیا جاسکتا ہے۔ اگر سرمایہ کاری قسطوں میں کی گئی ہے تو پھر آخری قسط کی ادائیگی کی تاریخ کو سرمایہ کاری کی تاریخ تصور کیا جائے گا۔ براہ ِ کرم ایف ای سرکلر نمبر 1 برائے 2020ء کے ضمیمہ الف کا پیرا 1(د) ملاحظہ فرمائیں،جو اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ کے اس لنک پر دستیاب ہے۔
    http://www.sbp.org.pk/epd/2020/FEC1.htm.
    رقم منتقلی پر چارجز کا اطلاق ارسال کنندہ بیرونِ ملک بینک کے شیڈول کے مطابق ہوگا۔بینکوں نے اِس منتقلی پر چارجز کم کر کے 5 سے 9 ڈالر تک لانے کے لیے اپنے بیشتر کرسپانڈنٹ بینکوں کے ساتھ خصوصی انتظامات کیے ہیں۔ چارجز پر مزید معلومات کے لیے آپ اُس بینک سے رابطہ کر سکتے ہیں جس میں آپ نے آر ڈی اے کھولا ہے یا کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
    پاکستان میں ان اکاؤنٹس سے رقوم منتقل کرنے کی صورت میں متعلقہ بینک کی ویب سائٹ پر موجود مقررہ چارجز کے مطابق کٹوتی ہوگی۔

    1. ایف سی وی اے سےاین آر وی اے میں رقوم کی منتقلی کے وقتبینک شرح مبادلہ کی موجودہ قیمتِ خرید لاگو کرے گا ، جبکہ این آر وی اے سے ایف سی وی اے میں رقم کی منتقلی پر بینک شرح مبادلہ کی قیمت فروخت کا اطلاق کرے گا۔
    2. این آر وی اے میں بیرون ملک سے رقوم کی وصولی کے وقت بینک شرح مبادلہ کی موجودہ قیمتِ خرید کے حساب سے رقم منتقل کرے گا۔ این آر وی اے کے ذریعے پاکستان سے باہر رقوم کی منتقلی کے وقت بینک شرح مبادلہ کی موجودہ قیمتِ فروخت لاگو کرے گا۔
    3. اے ٹی ایم / ڈیبٹ کارڈز کے ذریعے رقم کی منتقلی/ ادائیگی پر بینک کے اضافی اور ادائیگی اسکیم مثلاً، ویزا/ ماسٹر کے سروس چارجز کا اطلاق ہوگا۔
    اکاؤنٹ ہولڈر کے انتقال کی صورت میں اُ س اکاؤنٹ میں موجود بقایا رقم اور اکاؤنٹ سے کی گئی سرمایہ کاری کے واجبات بشمول واجب الوصول منافع، اگر ہوتو، وراثت کے موجودہ قانون کے تحت متوفی کے قانونی ورثا کو ادا کیا جائے گا۔
    ’نیا پاکستان سرٹیفکیٹس‘ (این پی سی) کے منافع پر 10 فیصد کی شرح سے ٹیکس کٹوتی ہوگی۔ سرٹیفکیٹس پر منافع کے اعتبار سے صرف اور صرف مذکورہ ٹیکس لاگو ہوگا اور ٹیکس واجبات ادا ہو جائیں گے۔ سرٹیفکیٹس پر منافع کے سلسلے میں ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ این پی سی پر ٹیکس کے تعین کی ایک مثال درج ذیل ہے:ے

    کرنسی

    سرمایہ کاری کی رقم

    مدت

    شرح منافع (سالانہ)

    منافع کی رقم

    عائد کردہ ٹیکس 10 فیصد

    خالص منافع بعد از ٹیکس

    عرصیت کی تکمیل پر واجب الوصول رقم

    امریکی ڈالر

    100,000

    3 ماہ

    5.5 فیصد

    1375

    137.5

    1237.5

    101,237.50

    برطانوی پونڈ

    100,000

    6 ماہ

    5.5 فیصد

    2,750

    275

    2,475

    102,475.00

    یورو

    100,000

    12 ماہ

    5.25 فیصد

    5,250

    525

    4,725

    104,725.00

    پاکستانی روپیہ

    100,000

    12 ماہ

    10.5 فیصد

    10,500

    1050

    9,450

    109,450

    نہیں۔ زکوٰۃ اور عشر آرڈیننس 1980ء کی دفعہ 3 (1) (الف) (ب) کے تحت، جسے زکوٰۃ کی وصولی اور واپسی کے ضوابط 1981ء کے ضابطہ 24۔ اے کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے، زکوٰۃ کی لازمی کٹوتی کا آر ڈی اے ( ایف سی وی اے اور این آر وی اے دونوں)پر اطلاق نہیں ہوگا۔
    پاکستانی تارکین وطن کی آرا اور اسٹیٹ بینک کی سفارشات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت نے روشن ڈجیٹل اکاؤنٹ رکھنے والے غیر مقیم پاکستانیوں کے لیے ایک نیا، سادہ، سہل اور آسان ٹیکس نظام متعارف کرایا ہے۔ یہ نظام سرکاری قرضہ تمسکات (خواہ روایتی ہوں یا شریعت سے ہم آہنگ)، اسٹاک مارکیٹ، میوچل فنڈز، ریئل اسٹیٹ، اور بینک کی ڈپازٹ پروڈکٹس میں آر ڈی اے کے ذریعے غیر مقیم پاکستانیوں کی طرف سے کی جانے والی تمام سرمایہ کاریوں پر لاگو ہوگا۔ آر ڈی اے کے حامل غیر مقیم پاکستانیوں کے لیے اس نئے ٹیکس نظام کی خصوصیات یہ ہیں:۔

    غیر مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بینکاری لین دین

    1. غیر مقیم پاکستانیوں کی طرف سے رقم نکلوانے یا ایک اکاؤنٹ سے دوسرے اکاؤنٹ میں رقم منتقل کرنے پر کوئی ودہولڈنگ ٹیکس نہیں ہوگا2۔ آر ڈی اے کے حامل غیر مقیم پاکستانیوں کو شق 236 پی، 231 اور 231 اے سے مستثنیٰ کیا گیا ہے۔

    غیر مقیم پاکستانیوں کے آر ڈی اے ڈپازٹس

    1. آر ڈی اے ڈپازٹس سے ملنے والے منافع پر ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی ضرورت نہیں3
    2. آر ڈی اے ڈپازٹس پر ملنے والا منافع ٹیکس سے مستثنیٰ ہے 4
    3. آر ڈی اے ڈپازٹس پر ملنے والے منافع سے ودہولڈنگ ٹیکس منہا نہیں کیا جائے گا 5
    4. فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے استثنیٰ کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں6

    نیا پاکستان سرٹیفکیٹس (این پی سی) میں سرمایہ کاری

    1. این پی سی سے ملنے والے منافع پر ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی ضرورت نہیں7
    2. غیر مقیم پاکستانیوں اور اُن مقیم پاکستانیوں کے لیے جنہوں نے اپنے بیرونِ ملک اثاثے ظاہر کر دیے ہیں، این پی سی پر منافع پر صرف اور صرف 10 فیصد ٹیکس لاگو ہوگا 8


    غیر مقیم پاکستانیوں کی طرف سے حصص اور میوچل فنڈز میں سرمایہ کاری

    1. منافع منقسمہ اور کیپٹل گین پر ملنے والے منافع پر ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی ضرورت نہیں9
    2. کیپٹل گین پر منافع پر صرف اور صرف 15 فیصد ٹیکس لاگو ہوگا
    3. آئی پی پیز، اور ٹیکس سے مستثنیٰ کمپنیوں سے ملنے والے منافع منقسمہ پر ٹیکس بالترتیب 7.5 فیصد اور 25 فیصد ہوگا، جبکہ میوچل فنڈز اور کمپنیوں سے ملنے والے منافع منقسمہ پر صرف اور صرف 15 فیصد ٹیکس لاگو ہوگا
    4. ایکٹو ٹیکس پیئرز لسٹ (اے ٹی پی ایل) سے غیر موجودگی کی بنا پر جرمانہ یا ٹیکس شرح دگنی نہیں ہوگی 10


    غیر مقیم پاکستانیوں کی طرف سے جائیداد میں سرمایہ کاری

    1. غیر مقیم پاکستانیوں کو جائیداد کی فروخت پر ملنے والے کیپٹل گین پر ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی ضرورت نہیں11
    2. جائیداد کی فروخت کے وقت مالیت پر صرف اور صرف ایک فیصد کیپٹل گین ٹیکس
    3. جائیداد کی خریداری کے وقت مالیت پر صرف اور صرف ایک فیصد ٹیکس کی ادائیگی


    1اس ٹیکس نظام کے لیے غیر مقیم پاکستانیوں (این آر پیز) میں یہ افراد شامل ہیں: وہ غیر مقیم افراد جو پاکستان اوریجن کارڈ (پی او سی) ، قومی شناختی کارڈ برائے سمندر پار پاکستانی یا کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کے حامل ہوں۔
    2سیکنڈ شیڈول کے حصہ چہارم کی شق 112 اے غیر مقیم پاکستانیوں کو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی زیرِ دفعہ 231 اے، 231 اے اے اور 236 پی ٹیکس کٹوتی سے مستثنیٰ کرتی ہے۔۔
    3انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکنڈ شیڈول کے حصہ چہارم کی شق 114 اے۔
    4انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکنڈ شیڈول کے حصہ اوّل کی شق 78 اور 79۔
    5انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکنڈ شیڈول کے حصہ دوم کی شق 5 اے سی۔
    6انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکنڈ شیڈول کے حصہ دوم کی شق 5 اے سی۔
    7انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکنڈ شیڈول کے حصہ چہارم کی شق 114 اے ۔
    8انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکنڈ شیڈول کے حصہ دوم کی شق 5 اے اور 5 اے اے ۔
    9انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکنڈ شیڈول کے حصہ چہارم کی شق 114 اے ۔
    آر ڈی اے پر لاگو ہونے والی ہدایات اُن ہدایات سے مختلف ہیں جو غیر ملکی کرنسی کے موجودہ اکاؤنٹس پر لاگو ہوتی ہیں، خاص طور پر غیر ملکی کرنسی کے موجودہ اکاؤنٹس میں ملکی ذرائع سے رقوم بھیجی جا سکتی ہیں، چنانچہ غیر ملکی کرنسی کے موجودہ اکاؤنٹس سے رقوم آر ڈی اے کو نہیں بھیجی جا سکتیں۔
    اسٹیٹ بینک نے غیر مقیم پاکستانیوں کی سہولت کے لیے ضوابط میں تبدیلی کی ہے۔ اب معطل اکاؤنٹ کو دوبارہ فعال بنانے کے لیے بینک برانچ جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ براہِ کرم اس لنک پر جائیں:

    https://www.sbp.org.pk/bprd/2020/CL32.htm
    بین البینک ریٹ بینکوں کے مابین لین دین کے لیے ہوتے ہیں نہ کہ بینک اور اس کے صارفین کے درمیان لین دین کے لیے۔ لین دین کے حجم اور دیگر متعلقہ آپریشنل پراسیسز کی بنا پر بینکوں کی طرف سے اپنے صارفین کو پیش کردہ شرحِ مبادلہ مختلف ہو سکتی ہے۔ تاہم بینکوں پر لازم ہے کہ وہ اُس وقت اپنی ویب سائٹ پر (زرِمبادلہ کی خریدوفروخت دونوں کی) موجود شرحِ مبادلہ اپنے صارفین کو شفاف طریقے سے منتقل کریں ۔
    زرِمبادلہ کے ضوابط کے نکتہِ نظر سے ، غیر مقیم پاکستانیوں اور ان کے اہل خانہ کو مالکاری سہولت بشمول کریڈٹ کارڈ کی اندرونِ ملک فراہمی پر کسی طرح کی پابندی نہیں ہے۔ تاہم متعلقہ بینک کریڈٹ رسک کی بنیاد پر یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آیا وہ ایسی کوئی پراڈکٹ پیش کریں یا نہیں جس کے لیے کھاتے دار کو اپنے بینک سے رابطہ کرنا پڑے۔
    اگر کوئی پاکستانی باشندہ غیر ملک سے مستقل طور پر پاکستان واپس آ جائے تو اس کے پاس دو راستے ہوں گے:

    (الف) آر ڈی اے کو پہلے کی طرح برقرار رکھیں۔ اس صورت میں آر ڈی اے میں دستیاب تمام رعایتیں اُس حد تک آئندہ بھی موجود رہیں گی جس حد تک آر ڈی اے میں یا اس کے ذریعے کی جانے والی کسی سرمایہ کاری میں رقم موجود رہے گی، یعنی اخراجِ سرمایہ (disinvestment) کی رقوم آر ڈی اے میں وصول کی جا سکتی ہیں۔اکاؤنٹ کی حیثیت قابلِ واپسی (repatriable) برقرار رہے گی۔ صارف کی مرضی ہوگی کہ وہ یہ رقم ملک کے اندر یا بیرون ملک استعمال کرے۔ تاہم ان اکاؤنٹس میں ملکی رقوم جمع کرانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

    پاکستانی روپے میں آر ڈی اے کے ذریعے مزید سرمایہ کاری کی اجازت نہیں ہوگی۔ غیر ملکی کرنسی والے آر ڈی اے کے ضمن میں اگر صارف کے بیرونِ ملک اثاثے ہوں جنہیں ایف بی آر میں ظاہر کیا جا چکا ہو تو وہ اثاثے غیر ملکی کرنسی والے آر ڈی اے کو رقم فراہم کرنے، اور غیر ملکی کرنسی والے حکومت پاکستان کی تمسکات میں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ مندرجہ بالا کے ساتھ ساتھ، اگر صارف کو ملکی رقوم ملتی ہیں تو صارف کو روپے میں اقامتی کھاتہ رکھنے کی ضرورت ہوگی جسے اس کے مطابق چلایا جا سکے گا۔

    (ب) دوسرا راستہ یہ ہے کہ آر ڈی اے کی حیثیت بدل کر اقامتی کر لی جائے۔ اگر صارف اپنے آر ڈی اے کو اقامتی کھاتے میں بدلنے کا راستہ اپناتا ہے تو رعایتیں خصوصاً وہ رعایت جس کے تحت کھاتے سے رقم واپس نکالنے کی اجازت ہے، ختم ہو جائے گی۔ تاہم پہلے سے سرمایہ کاری میں لگائی گئی رقم کے اخراج کی صورت میں ملنے والی رقم کھاتے میں وصول کی جا سکے گی۔ اس کھاتے کو اقامتی کھاتے کے طور پر آزادانہ استعمال کیا جا سکے گا۔
    یہ اُس بینک کے اطمینان پر منحصر ہے، اسٹیٹ بینک کی طرف سے دی گئی ضوابطی شرائط کم از کم ہیں۔ اگر کسی صارف کا خاکہ تبدیل ہوتا ہے تو بینک مزید معلومات / دستاویزات طلب کر سکتا ہے۔ صارفین کو چاہیے کہ اپنی معلومات شفافیت کے ساتھ فراہم کریں تاکہ بینک کو اس کے ساتھ لین دین میں اطمینان محسوس ہو اور اُس کی ضروریات کے مطابق اسے سہولت دی جائے۔
    جی ہاں، آر ڈی اے کا حامل کوئی شخص پاکستان میں غیر ملکی کرنسی کے ساتھ ساتھ پاکستانی روپے میں رقم نکلوا سکتا ہے۔
    نہیں۔ موجودہ جائیداد سے کرایہ یا فروخت سے حاصل ہونے والی رقم آر ڈی اے میں جمع نہیں کرا ئی جا سکتی ۔ تاہم اگر جائیداد آر ڈی اے کے ذریعے خریدی گئی ہے تو اس جائیداد سے حاصل ہونے والا کرایہ/ منافع (کیپٹل گین)آر ڈی اے میں جمع کرایا جا سکتا ہے، اور ضرورت پڑنے پر واپس بھی بھیجا جا سکتا ہے۔
    جی ہاں، ایک ہی بینک میں یا مختلف بینکوں میں ایک سے زائد آر ڈی اے کھولے جا سکتے ہیں۔
    جواب: جی ہاں، روشن ڈجیٹل اکاؤنٹ ہولڈر ایک ہی وقت میں آر ڈی اے کی تمام مصنوعات حاصل کر سکتا ہے، بشرطیکہ وہ متعلقہ مصنوعات کی شرائط و ضوابط کو پورا کرتا ہو۔
    جواب: جی ہاں، بیرونِ ملک سے جو ترسیلات آر ڈی اے میں وصول کی جائیں وہ اُس حد تک انعامی پوائنٹس کی حقدار ہوں گی جس حد تک رقم پاکستان میں مقامی اخراجات کے لیے استعمال کی جائے، اس میں روشن سماجی خدمات پر خرچ کی گئی رقوم بھی شامل ہیں۔ آر ڈی اے ہولڈرز کو سوہنی دھرتی ریمی ٹینس پروگرام میں اندراج کرانے کی ترغیب دی جاتی ہے تاکہ وہ اس پروگرام کے انعامی پوائنٹس حاصل کر کے انہیں استعمال کر سکیں۔ مزید تفصیلات اس لنک پر موجود ہیں: https://www.sbp.org.pk/sohnidharti/index.html