اسٹیٹ بینک کے بارے میں 

بینک دولت پاکستان کے وظائف  


ایک ترقی پذیر ملک کے مرکزی بینک کی طرح بینک دولت پاکستان بھی کلی معاشی اہداف کے حصول کے لیےروایتی اور ترقیاتی دونوں ہی وظائف سرانجام دیتا ہے۔ روایتی وظائف کو، جو دنیا بھر کے تقریباً تمام مرکزی بینک بالعموم ادا کرتے ہیں، دو گروپوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: (الف) بنیادی وظائف بشمول نوٹوں کا اجرا، مالی نظام کا انضباط اور نگرانی، بینکاروں کا بینک ہونا، حتمی قرض دہندہ ، حکومت کے لیے بینکر ہونا، اور زری پالیسی کا انتظام ، اور (ب) ثانوی وظائف بشمول رابطہ کاری امور جیسے سرکاری قرضوں کا انتظام ، زرمبادلہ وغیرہ کا انتظام، اور دیگر افعال جیسے پالیسی امور پر حکومت کو صلاح مشورہ دینا اور بین الاقوامی مالی اداروں کے ساتھ قریبی روابط رکھنا ۔

اسٹیٹ بینک کے غیر روایتی یا ترقیاتی افعال میں مالی فریم ورک کی تشکیل، بچتوں اور سرمایہ کاری کی ادارہ بندی، بینکاروں کو تربیتی سہولیات کی فراہمی، اور ترجیحی شعبوں کو قرضوں کی فراہمی شامل ہیں۔ بینک دولت پاکستان بینکاری نظام کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کے عمل میں بھی سرگرم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے اہم وظائف اور ذمہ داریوں کی درجہ بندی یوں کی جاسکتی ہے:

سیالیت کا انضباط
ملک کا مرکزی بینک ہونے کی بنا پر بینک دولت پاکستان کویہ ذمہ داری تفویض کی گئی ہے کہ زری اور قرضہ  پالیسی اس طرح تیار کرے اور اس کا انتظام کرے کہ  نمو اور گرانی سے متعلق حکومت کے اہداف سے، اور کلی معاشی پالیسی کے مقاصد  کے لحاظ سے زری اور مالیاتی پالیسیوں کے رابطہ بورڈ کی  سفارشات سے ہم آہنگ ہو۔اپنے وظائف کے اعتبار سے اس کا بنیادی مقصد دو جہتی ہے: ملکی قیمتوں میں استحکام  کے لیے زری استحکام برقرار رکھنا،   اور اس کے ساتھ ہی معاشی نمو کا فروغ۔

مختلف استعمالات اور شعبہ جات کی طرف قرضوں کی رقوم کا حجم اور سمت منضبط کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک زری انتظام کے بلاواسطہ اور بالواسطہ دونوں ہی طریقے استعمال کرتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک زر اور قرضوں کی صورت حال قرضہ منڈیوں کی شدید دھڑے بندیوں اور ان سے ہونے والی ابتری کا شکار تھی۔ پاکستان نے 1980ء کی دہائی کے اواخر میں مالی شعبے کی اصلاحات کا ایک پروگرام شروع کیا۔ تب سے اب تک زری انتظام کے طریقہ کار میں کئی ایک بنیادی تبدیلیاں کی جا چکی ہیں جن کی خصوصیت یہ ہے کہ زری انتظام انتظامی کنٹرولز اور مقداری پابندیوں سے نکل کر مارکیٹ کی بنیاد پر تشکیل کی طرف آ گیا۔ زربنیاد کے انتظام کا بھی ایک منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ منصوبے کے مطابق زرِ بنیاد کے مطلوبہ راستے کی پابندی کر کے ایم 2 کا وساطتی ہدف " آپریٹنگ ہدف" حاصل ہوگا۔ اب کنٹرول کے بالواسطہ طریقے، جیسے نقد محفوظ کا تناسب اور سیالیت کا تناسب، استعمال کیے جا رہے ہیں، جبکہ منصوبے کا زیادہ تر انحصار بازار زر کے سودوں پر ہے۔

مالی نظام کے استحکام کو یقینی بنانا

انضباط اور نگرانی مالی نظام کی ضابطہ سازی اور نگرانی اسٹیٹ بینک کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے، تاکہ مالی نظام کے استحکام اور پائیداری کے ساتھ ساتھ امانت گزاروں کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی کے علاوہ جدید بینکاری سرگرمیوں میں بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں نے نگرانی کے عمل کو مزید دشوار اور صبرآزما بنا دیا ہے۔ ادارہ جاتی پیچیدگی بڑھ رہی ہے، تکنیکی باریکیوں میں اضافہ ہورہا ہے اور بینکاری سرگرمیوں میں تیکنیکی پہلو وسیع ہو رہا ہے۔ یہ سب تبدیلیاں تقاضہ کرتی ہیں کہ اسٹیٹ بینک ملک کے تیزی سے بدلتے مالی منظرنامے سے ہم آہنگ رہنے کے لیے سخت کوشش کرے۔ اسی طرح مالی اداروں کی بہتر جانچ اور نگرانی کرنے کے لیے فرسودہ طریقوں کی جگہ نئے طریقے اختیار کیے گئے ہیں۔ بینکاری سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے کے لیے اب فاصلاتی نگرانی اور برمقام معائنہ و دیکھ بھال کا طریقہ اپنایا گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک مختلف بینکوں کی جانب سے متواتر موصول ہونے والے مختلف گوشواروں کی باقاعدہ پڑتال کر کے فاصلاتی نگرانی انجام دیتا ہے۔ دوسری جانب جب کبھی ضرورت ہو تو اسٹیٹ بینک متعلقہ بینکوں کی حدود میں جا کر ان کا برمقام معائنہ بھی کرتا ہے۔

جس طرح قرضوں کے ذرائع میں تنوع لایا گیا اسی طرح مالی منڈیوں کی وسعت اور ان کی بنیادیں گہری کرنے کی غرض سے کئی غیر بینک مالی اداروں (NBFIs) کو وسعت کی اجازت دی گئی۔ ان اداروں کی ضابطہ کاری اور نگرانی کی ذمہ داری بھی اسٹیٹ بینک پر عائد کی گئی ہے۔ ان اداروں کی سرگرمیوں کو باضابطہ بنانے اور ان کی رہنمائی کے لیے این بی ایف آئیز ریگولیشن اینڈ سپرویژن ڈپارٹمنٹ قائم کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ مالی خدمات حاصل والے صارفین کے مفادات کے تحفظ، اور خدمت فراہم کرنے والے ان اداروں کی نمو پذیری یقینی بنانے کے لیے اسٹیٹ بینک نے (کمرشل بینکوں کے لیے) محتاطیہ ضوابط کا اور(این بی ایف آئیز کے لیے) کاروباری اصولوں کا ایک جامع مجموعہ جاری کیا ہے۔

بینکوں کے لیے یہ محتاطیہ ضوابط قرض اور خطرے کے اکتشاف کی حد مقرر کرنے کے علاوہ بہت سے امور میں رہنما ہدایات تجویز کرتا ہے، جیسے طویل مدتی اور قلیل مدتی قرضے کی درجہ بندی، منی لانڈرنگ اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے بینکاری ذرائع کے مجرمانہ استعمال کی روک تھام، منافع منقسمہ کی ادائیگی کے اصول وضع کرنا، بینکوں کو ظاہری چمک دمک سے باز رہنے کی ہدایت کرنا اور انہیں پرانے قرضوں کے نادہندگان کو نئے قرضے دینے سے روکنا۔ بیلنس شیٹ اور نفع و نقصان کے کھاتوں کا موجودہ طریقہ کار تبدیل کر کے بین الاقوامی معیارات کے مطابق کر دیا گیا ہے جو معاملات کی شفافیت کو یقینی بناتا ہے۔ سرمائے کی ضروریات پر نظرثانی کرکے کم سے کم ادا شدہ سرمائے کی حد 500 ملین روپے قرار دی گئی ہے۔ دسمبر 1997ء سے نافذ اس اصول کے تحت ہر بینک پر لازم ہے کہ اپنے بہ وزن خطرہ اثاثوں کا 8 فیصد سرمایہ اور مالی ذمہ داریوں سے آزاد عمومی ذخائر برقرار رکھے۔

این بی ایف آئیز کے لیے ’’اصولِ کاروبار‘‘ اسی روز سے نافذ ہوگئے جس روز سے یہ ادارے اسٹیٹ بینک کے دائرہ اختیار میں آئے۔ چنانچہ مضاربہ اور اجارہ کمپنیاں، جو این بی ایف آئیز کی تخصیصی قسم بھی ہیں، جنوری 1997ء سے ان کی ضابطہ کاری / نگرانی اسٹیٹ بینک کی بجائے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی پی) کرتا ہے۔

شرح مبادلہ کا انتظام اور ادائیگیوں کا توازن اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ملکی کرنسی کی بیرونی قدر برقرار رکھنا بھی ہے۔ اس ضمن میں اس پر لازم ہے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ فارن ایکسچینج ایکٹ 1947ء کی شقوں کے مطابق ملک میں زر مبادلہ کے ذخائر کا انتظام کرے۔ اسٹیٹ بینک حکومت کے لیے بطور ایک عامل بھی کام کرتا ہے، چنانچہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ،1956ء کی دفعہ 17 کی ذیلی دفعہ 13 (اے) اور 13 (ایف) کے تحت بینک سونے، چاندی یا منظور شدہ زر مبادلہ کی خریداری اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ اسپیشل ڈرائنگ رائٹس کے لین دین کا مجاز ہے۔

شرح مبادلہ کا انتظام اور ادائیگیوں کا توازن
اسٹیٹ بینک اس بات کا ذمہ دار ہے کہ روپے کی شرح مبادلہ کو مناسب سطح پر رکھے اور اسے کسی بڑے اتار چڑھاؤ سے بچائے تاکہ ہماری برآمدات کی مسابقتی حیثیت برقرار رہے نیز بازار مبادلہ میں استحکام رہے۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے حالات کے پیش نظر وقتاً فوقتاً کئی مبادلہ پالیسیاں اختیار کی گئیں۔1971ء تک پاکستانی روپیہ پاؤنڈ اسٹرلنگ سے منسلک رہا، اس کے بعد سے امریکی ڈالر سے منسلک ہے۔ تاہم بعد میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ رواں شرح مبادلہ کا نظام اختیار کیا جائے جس کا اطلاق 8 جنوری 1982ء سے ہوا۔ اس نظام کے تحت روپے کی قدر پاکستان کے اہم تجارتی شراکت داروں اور حریفوں کی کرنسی کے ایک مجموعے کو سامنے رکھ کر یومیہ بنیاد پر متعین کی جاتی تھی۔ اس کی قدر میں حالات کی ضرورت کے پیش نظر ردوبدل کیا جاتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ایک اہم پیش رفت اس وقت ہوئی جب پاکستان نے آئی ایم ایف آرٹیکلز آف ایگریمنٹ کے ارٹیکل ہشتم کی دفعہ 2، 3 اور 4 کے تحت ذمہ داریوں کو قبول کیا چنانچہ یکم جولائی 1994ء سے پاکستانی روپیہ جاریہ بین الاقوامی لین دین کے لیے مبادلہ پذیر بن گیا۔

1998ء میں پاکستان نے ایٹمی دھماکوں کے بعد 22 جولائی 1998ء سے شرح مبادلہ کا دو سطحی نظام متعارف کروایا، اس کا مقصد یہ تھا کہ زر مبادلہ کے سرکاری ذخائر پر آنے والے دباؤ کو کم کیا جائے اور پاکستان پر لگائی جانے والی پابندیوں کے معیشت پر منفی اثرات کسی حد تک کم کیے جائیں۔ تاہم 19 مئی 1998ء سے منڈی پر مبنی رواں شرح مبادلہ کا نظام آنے سے شرح مبادلہ پھر سے یک سطحی ہو گئی ہے۔ اس نظام کے تحت بازار مبادلہ میں طلب اور رسد کی بنیاد پر شرح مبادلہ کا تعین کیا جاتا ہے۔ برآمدات اور خدمات سے زر مبادلہ کی ہونے والی وصولی پہلے مجاز ڈیلروں کے توسط سے اسٹیٹ بینک کو بھجوائی جاتی تھی لیکن اب کمرشل بینک اور دیگر مجاز ڈیلر غیر ملکی کرنسیاں رکھنے اور ان میں لین دین کرنے کے لیے آزاد ہیں۔

ملک کے زر مبادلہ ذخائر کا نگراں ہونے کی حیثیت سے اسٹیٹ بینک ان ذخائر کے انتظام کا بھی ذمہ دار ہے۔ یہ کام ایک سرمایہ کاری کمیٹی انجام دیتی ہے، کمیٹی ذخائر کی مجموعی سطح، عرصیتوں اور ادائیگی کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فاضل فنڈز کی سرمایہ کاری کا فیصلہ اس انداز سے کرتی ہے کہ فنڈز کی سیالیت کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ آمدنی میں بھی اضافہ ہو سکے۔ بازار مبادلہ میں اقدامات کے لیے بھی یہی ذخائر استعمال ہوتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے بینک دولت پاکستان کے مرکزی دفتر نظامت میں ایک زرمبادلہ ڈیلنگ روم قائم کیا گیا ہے اور زرِ مبادلہ کے ایک ماہر کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔

اسٹیٹ بینک کا ارتقائی کردار

اسٹیٹ بینک کا ارتقائی کردار کسی ترقی پذیر ملک میں ایک مرکزی بینک کی ذمہ داری وسیع معاشی مقاصد حاصل کرنے کے لیے زری پالیسی کا انتظام کرنے کے عمومی فرائض سے کہیں آگے بڑھ جاتی ہیں۔ اس کردار میں نہ صرف زری اور سرمایہ منڈیوں کے اہم اجزا کی تشکیل شامل ہوتی ہے بلکہ ملک کی معاشی ترقی کے عمل میں معاونت بھی اس کردار کا حصہ ہوتا ہے تاکہ ملک کے وسائل کے پوری طرح استعمال کو فروغ ملے۔

اپنے قیام کے بعد ہی سے بینک دولت پاکستان زر اور قرضوں کی ضابطہ سازی کا اپنا روایتی وظیفہ ادا کرنے کے علاوہ کلی معاشی مقاصد کے حصول کے لیے اپنا سرگرم ارتقائی کردار ادا کرتا رہا ہے۔ مرکزی بینک کا اپنے ترقیاتی کردار کو واضح طور پر سمجھ لینا دراصل اس کی اِس خواہش کا نتیجہ ہے کہ تمام پالیسیاں تیز رفتار معاشی نمو کے مقصد کے لیے از سر نو مرتب کی جائیں۔ چنانچہ اسٹیٹ بینک نے مرکزی بینک کی روایتی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ مسلمہ ترقیاتی کردار کو بھی جگہ دی ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956ء کے تحت بینک کے قانون میں معاشی نمو کا مقصد شامل کر کے اس کی سرگرمیوں کا دائرہ خاصا وسیع کر دیا گیا ہے۔ ترقی کے عمل میں بینک کی شرکت کی کئی صورتیں ہیں، مثلاً پاکستان میں بینکاری نظام کا احیا، نئے مالی اداروں کا قیام اور مالی وساطت کے فروغ کے لیے نئے قرضہ جاتی آلات کی تیاری، ترقیاتی مالی اداروں کا قیام، چنیدہ ترقیاتی ترجیحات کے مطابق قرض کے استعمال میں رہنمائی، اعانتی قرضوں کی فراہمی، اور بازار سرمایہ کی تشکیل۔